BASIL BY HUMA WAQAS (ROMANTIC URDU NOVEL) - Urdu Romantic Novelz

Breaking

Urdu Romantic Novelz

Urdu Romantic Novelz

test banner

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Saturday, August 8, 2020

BASIL BY HUMA WAQAS (ROMANTIC URDU NOVEL)

 

✍️بقلم:  ہما وقاص

کراچی مصروف , مگن , ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں لگے لوگوں کا شہر آج بھی معمول کے مطابق بہت سی بھاگتی دوڑتی زندگیوں کا مرکز بنا ہوا  تھا ۔ بس ایک  سمندر  تھا جو صبح  کے اس وقت  پرسکون سا اپنی لہروں کو ساحل  کی طرف اچھال اچھال کر  کھیل رہا تھا  ۔

  دن گیارہ بجے  یہ ایک منظر   یونیورسٹی  آف کراچی  کا  تھا ۔ جہاں  لڑکے اور  لڑکیاں کندھوں پر بستے لٹکائے سینوں سے فائل لگائے یونیورسٹی کے کمروں کے آگے بنی   اس لمبی راہداری میں گردش کر رہے تھے  ۔  کوئی جا رہا تھا تو کوئی آ رہا تھا ۔ باتوں میں مگن , قہقے لگاتے بے فکر چہرے ۔

وہ سر جھکائے اسی راہداری میں اوپری منزل کو چڑھتی سیڑھیوں میں خاموش سر جھکائے  بیٹھی تھی۔ سادہ سا گلابی رنگ کا قمیض شلوار اور گلے میں جھولتا ہم رنگ دوپٹہ ۔ بالوں کی ڈھیلی سی پونی ۔ میک اپ سے آری بے داغ  زردی مائل چہرہ بس آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے تھے ۔ آمنہ  اس کے سامنے ایک سیڑھی نیچے بیٹھی تھی ۔  چہرہ اوپر اٹھائے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے۔

اس دن دعا کے بارے میں وہ اچانک اسے اللہ سے مانگنے کا کہہ گئی تھی  اور پھر  بنا سوچے سمجھے مسلمان ہونے کا کہہ دیا  لیکن بعد میں  احساس ہوا یہ اس نے اچھا نہیں کیا  ۔

یونیورسٹی  میں  اس کے گروپ میں موجود تین لڑکیوں میں سے آمنہ کے ساتھ اس کی  زیادہ بات چیت  تھی ۔ آمنہ بہت ہی تحمل مزاج , ہنس مکھ اور ذہین لڑکی تھی ۔  حنا کے بعد اس کی گہری دوستی آمنہ سے ہوئی تھی ۔  یہاں اس کا  ایم۔ کام  کا پہلا سال تھا ۔

  آمنہ اس دن کے بعد  سے  محسوس کر رہی تھی کہ جوی چپ چپ رہنے لگی ہے اس سے بات بھی کم کرتی تھی ۔ شائد اسے یوں اسے اللہ سے دعا مانگنے اور مسلمان ہونے کا نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ ان کے درمیان بہت اچھی دوستی تھی ۔ وہ جوی جیسی مخلص اور بہادر لڑکی کو کھونا نہیں چاہتی تھی ۔

" کیا ہوا بتاؤ تو ؟  چپ کیوں ہوں اتنی ؟ " 

آمنہ نے پھر سے اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا اور دوسری دفعہ وہی سوال دہرایا ۔  جوی نے کچھ دیر خاموشی سے آمنہ کی طرف دیکھا ۔ وہ حجاب کی  صورت ہلکے نیلے رنگ کے اسکارف کو چہرے کے گرد لپیٹے ہوئے تھی ۔ نیچے سیاہ گاؤن زیب تن کئے ہوئے   ۔ 

اس کی شفاف روشن آنکھیں تھیں ۔ ایک عجیب ٹھنڈک اور سکون تھا اس کی آنکھوں میں ۔  وہ جب بھی آمنہ کی آنکھوں کو دیکھتی تو حیران رہ جاتی کوئی انسان اتنا پرسکون کیسے ہو سکتا ہے ۔

اس کی زندگی تو  انگنت پریشانیوں میں گھری تھی  ۔ نا ختم ہونے والی پریشانیاں , ذمہ داریاں ۔

چھ  سال ہونے کو آئے تھے جان بستر پر تھا ۔ دل کی  بیماری تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔

  جوی کے  رشتے کے لیے  جو لوگ بھی آتے   سب کو سنانا پسند آ جاتی تھی ۔ جوی کے بہت اسرار پر جان اور مریم نے سنانا کی شادی اس سے  پہلے کر دی تھی ۔  سنانا چند ماہ بعد ہی گھر  واپس آ گئ  ۔ اس کا شوہر شرابی اور جواری تھا جس کی خبر شادی کی بعد ہوئی وہ سنانا کو مارتا پیٹتا تھا  ۔ وہ چند ماہ ہی اس کے ظلم ستم برداشت کر سکی  ۔  شوہر نے چھوڑ دیا اور اس کے بعد اس  نے ایک بچی کو جنم دیا ۔  بے روزگاری اور غربت نے کمر توڑ رکھی تھی اور گھر میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو گیا تھا  ۔ جان نے بہت کوشش کی کہ وہ  بی کام کے بعد  پڑھائی چھوڑ دے یونیورسٹی نہ جائے  کہیں جاب کی تلاش کرے ۔ مگر اس دوڑتی بھاگتی دھکم پیل کی زندگی میں وہ صرف بی کام کی ڈگری کے ساتھ کہیں بھی اچھی ملازمت نہ حاصل کر سکی ۔ 

وہ  پڑھائی میں بہت اچھی تھی اسی کو ذریعہ بنا کر   لوگوں  کے گھروں میں جا کر بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا ۔ اب وہ صبح یونیورسٹی  اور باقی کا سارا دن مختلف گھروں میں ہوم ٹیوشن کے لیے جاتی تھی ۔ اسطرح وہ نہ صرف اپنی پڑھائی کو جاری رکھے ہوئے تھی بلکہ مَیری اور جووت کو بھی پڑھا رہی تھی ۔

مریم اب ایک نجی ہسپتال میں صاف صفائی کا کام کرتی تھی لیکن اجرت بہت کم تھی ۔  اس طرح بمشکل وہ اپنا گزر بسر کر رہے تھے ۔  لائینز ایریا وہ جان کی بیماری اور ملازمت ختم ہونے کے  بعد ہی چھوڑ آئے تھے ۔  وہ فلیٹ قرض کی بدولت بیچنا پڑا  اب  ایک خستہ حال  چھوٹے سے گھر میں وہ لوگ کرایہ دار تھے  ۔

اس کی زندگی ایک مشین کی طرح تھی ۔ صبح سے شام اور شام سے رات ہو جاتی اسے پتہ نہ چلتا  ۔ رات کو جب آخری ہوم ٹیوشن کے بعد گھر لوٹتی تو تھک کر بستر پر گر جاتی ۔  وہ سب سے کٹ چکی تھی بس گھر کے اخراجات , بہن بھائیوں کی فیس اور باپ کی مہنگی ادویات اور علاج یہ سب اس کے گرد منڈلاتے رہتے ۔ یہی وجہ تھی اسے کبھی خبر تک نہ ہوئی جس کی ایک جھلک کی دعا وہ رات کو سوتے ہوئے کرتی ہے اور صبح اٹھ کر کرتی ہے ۔ وہ ہالی وڈ کا ایک سپر سٹار بن چکا ہے ۔ 

اتنی مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھری وہ دران کو کبھی نہیں بھول سکی  ۔ کبھی  یاد آتا کہ وہ اس کے بارے میں  کہا کرتی تھی کہ انیس سال کی عمر میں ہی انسان کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے لیکن زندگی کے تھپڑوں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا کہ پریشانیاں , دکھ اور تکلفیں کبھی عمر دیکھ کر نہیں آتی ہیں ۔

اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے دکھ ان کی عمروں کی گنتی  سے تجاوز کر جاتے ہیں ۔ وہ اپنے ہنسنے کھیلنے کی عمر میں ہی ذمہ داریوں کے بوجھ اٹھائے  ہوئے ہوتے ہیں ۔ سنانا اتنی چھوٹی سی عمر میں ایک بچی کی ماں بن گئ تھی ۔ اس کی اپنی اتنی پریشانیاں تھی کہ دونوں بہنوں کو اب کبھی ایک ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا  موقع شاز و نادر ہی ملتا تھا ۔

دران کو سوچنا اس کے ذہن کا واحد سکون تھا ۔ فرصت کا ایک لمحہ بھی ملتا  تو وہ ذہن اور دل میں اتر آتا تھا ۔  وہ  آج چھ سال بعد بھی  خدا سے  اس کی ایک جھلک  کی دعا کرتی تھی ۔ وہ اسے زندگی میں ایک دفعہ اور دیکھنا چاہتی تھی  ۔  زندہ سلامت  ۔ کیوں دیکھنا چاہتی تھی خود نہیں جانتی تھی ۔    

وہ اپنی مشکل پریشانیوں میں گھری اس دعا کی شدت میں کمی نہیں لا سکی اور  اس دن آمنہ  سے دعا نہ قبول ہونے کا شکوہ کر گئی۔  جس پر اس کی  کہی بات نے اسے بے چین کر دیا ۔  وہ الجھ کر رہ گئی   ۔

کتنے دن سے اس کا یوں گم صم رہنا آمنہ سے مخفی نہیں رہا  ۔ اب  وہ اس سے اس کی خاموشی کی وجہ پوچھ رہی تھی ۔   یونہی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ بول پڑی  ۔

" وہ۔۔۔۔ تم اس دن  ۔۔۔۔مجھ سے۔۔  کچھ کہہ رہی تھی "

جھجکتے ہوئے وہ اسے اس دن  کی بات یاد دلا گئی  ۔

میں!!!! کیا کہہ رہی تھی ؟ " 

آمنہ نے انجان بننے کی  کوشش کی ۔ نگاہیں لمحہ بھر کو چرائیں ۔

" اللہ سے دعا کے متعلق "

جوی نے آہستگی سے  اس کی آنکھوں میں  جھانکا۔

" کیا اللہ سے دعا کرنے کے لیے مجھے لازمی  مسلمان ہونا ہو گا , کیا میں ویسے دعا نہیں کر سکتی اللہ سے ؟"

جوی نے اپنے ذہن میں پنپتا سوال بنا کسی تمہید باندھے  پوچھ لیا ۔   آمنہ  خاموش تھی ۔ گہری خاموشی ۔ پھر اس نے مسکراتے ہوئے پورے وثوق سے جوی کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھا ۔

" دیکھو اللہ واحد ہے ۔ مطلب اس کا کوئی شریک نہیں ۔ جب ہم اس کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں تو دل , روح اور دماغ سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ واحد ہے ۔" 

وہ مٹھاس بھرے لہجے میں بات شروع کر چکی تھی ۔ جوی ہمیشہ کی طرح اس کے بولنے پر خاموش ہو گئی ۔ ناجانے کیوں اس کی باتیں بہت سادہ ہونے کے باوجود دل پر بہت اثر کرتی تھیں ۔ وہ جب بولتی تھی تو اعصاب پر ٹھنڈی پھوار جیسا احساس ہوتا تھا ۔

تم اللہ سے مانگنے بیٹھو گی اور اگر دل , دماغ یا روح میں سے کسی ایک کو بھی اللہ کے لا شریک ہونے پر گماں ہوا تو مطلب تم نے شرک کیا ۔ اور شرک اللہ کو پسند نہیں ۔ " 

جوی نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ کہیں کوئی مفاد نہیں تھا ۔ کہیں کوئی زبردستی نہیں ۔  وہ بہت پیار سے اسے اللہ کی سچائی سے آگاہ کر رہی تھی ۔

" اگر تم اللہ کے حضور  دل سے مانگنا چاہتی ہو ۔ تو دل , دماغ اور روح سے پاک ہو کر مانگو " 

پریقین لہجہ تھا ۔ جوی کو اس کے منہ سے نکلی ایک ایک بات سچ لگ رہی تھی ۔ دل اس کی باتوں پر ایمان لا رہا تھا ۔ اگر وہ اس کی باتیں سن کر سکون محسوس کر رہی تھی  تو ان پر عمل کرنے کے بعد کیا حال ہو گا ۔

" میں وضو کر لوں گی ۔ جو تم لوگ کرتے ہو ۔ مجھے وضو کا طریقہ بتا دینا " 

جوی نے آہستگی سے حل پیش کیا ۔ وہ مسکرا دی ۔ سر کو نفی میں ہلایا

وضو ہمارے جسم کی پاکیزگی ہے  ۔ لیکن مسلمان صرف جسم سے پاک ہو کر اللہ کے سامنے نہیں کھڑا ہوتا ۔ ہماری روح اور ہمارا دل بھی پاک ہوتا ہے۔ 

جوی کے چہرے پر  مایوسی کے سایے لہرائے ۔

" میری روح اور دل  اللہ کے پاس جانے  کے لیے  کیسے پاک ہو گا ؟ "

بے ساختہ سا سوال تھا ۔ نا جانے وہ کیوں کر گئی  ۔

" کلمہ پڑھنے سے "

آمنہ نے مختصر جواب دیا ۔ جوی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

" مطلب کلمہ پڑھنا ۔ اللہ کی واحدنیت کی گواہی دینا ۔ کلمہ پڑھنے سے اور  اس کے لا شریک ہونے کی گواہی دینے سے دل , روح  اور باطن پاک ہو جاتا ہے ۔ 

وہ بول رہی تھی جبکہ جوی یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی ۔

" دیکھو میں کوئی مذہبی  عالم نہیں ہوں لیکن تمھارے ذہن کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے بہت سی اچھی کتابیں ہیں میرے پاس  ۔ کیا تم پڑھو گی؟ "

اس نے جوی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا  ۔

" لا دوں کیا تمہیں ؟ "

وہ ہاتھ پر دباؤ ڈالتے ہوئے سوال کر رہی تھی ۔ جوی نے ساکن آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا  ۔ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے ۔ تھکے اعصاب ایک دم سے چاک و چوبند ہوئے ۔

نہ۔۔۔نہیں۔۔۔"  

جوی ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی  اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتی  ۔ وہ کب لابی سے لان اور لان سے یونیورسٹی کے گیٹ تک پہنچی پتہ نہ چلا  ۔ بیگ کے اندر رکھا موبائل بج رہا تھا ۔  اس نے عجلت میں  فون بیگ سے نکالا  ۔ آمنہ کا نمبر جگمگا رہا تھا ۔  فون کی گھنٹی بج بج کر بند ہو گئی   ۔ اب سکرین پر اس کا پیغام تھا ۔

" سوری "

                               ☆☆☆☆☆☆

لاویا شام کے چار بجے اس ڈربے نما کمرہ میں موجود پلنگ پر لی تاؤ کمبل کو اپنے گرد لیپٹے آنکھیں موندے ہوئے تھا ۔

ٹھک ۔۔۔ ٹھک کی آواز ذہن میں ایسی گونجی کے اس نے تیوری چڑھائے بمشکل آنکھیں کھولیں۔  لکڑی کے دروازے پر مسلسل دستک ہو رہی تھی ۔  حواس میں آنے کے بعد وہ منہ بسورتا ہوا  بمشکل بستر سے نکلا  ۔ جو کوئی بھی تھا ۔ دروازہ بجاتا ہی جا رہا تھا ۔

" آ رہا ہوں کیا توڑ دو گے اس کو "   وہ چینی زبان میں بڑبڑاتا اب چھوٹے سے کمرے سے لاؤنج میں آیا ۔ ٹرایوزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس وہ گرم بستر سے نکل کر عجلت میں  یونہی باہر آ گیا ۔

سیلپرز  سمیت پاؤں گھسیٹتا دروازے تک پہنچا  ۔ اور  ایک جھٹکے سے بنا پوچھے دروازہ کھول دیا ۔ سامنے کھڑے دران کو دیکھ کر آنکھیں شناسائی کے لیے چندھی کئیں ۔

ایک تو وہ ویسے نیند سے اٹھا تھا اوپر سے دران کا انجان چہرہ دماغ میں زور دینے سے بھی یاد نہیں آ رہا تھا ۔

" کون ہو ؟ "   ایک آبرؤ اچکائے بیزاری سے  سوال کیا ۔

دران نے جواب دینے کے بجائے قدم دروازے کے اندر داخل کیے ۔ لی تاؤ کا ماتھا ٹھنکا اس سے پہلے کہ وہ تیزی سے  دروازہ لگاتا ۔ ایک دھکا پڑا تھا اسے ۔

دھکا اتنی زور کا تھا کہ لی تاؤ لڑکھڑا کر لکڑی کے بنے  فرش پر پشت کے بل  گرا  ۔

گرے رنگ کے گرم کورٹ کے نیچے سیاہ پینٹ زیب تن کئے اونچا لمبا مضبوط شخص  اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا ۔  جیسے ہی دران اندر داخل ہوا   اس کے  پیچھے  ہی انل  نے قدم اندر رکھے ۔ لی تاؤ دونوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا  ۔

" کون ہو تم لوگ ؟ نکلو میرے گھر سے 

حیرت سے ان کو خبردار کرتا  وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔ دران نے آگے بڑھ کر اس کا گریبان تھاما اور اب کی بار ایک زور دار گھونسا تھا جو اس کے گال پر عین جبڑے کے اوپر  پڑا تھا ۔ وہ پورے کا پورا گھوم گیا  ۔ چہرہ ایسے جنبش میں آیا جیسے جبڑے ہل گئے ہوں ۔

انل اب کچن کی شیلف کے قریب پڑی کرسی کو اٹھا  کر قریب لا رہا تھا ۔ لی تاؤ نے سر کو تکلیف سے جھٹکا اور اپنی طرف سے پوری قوت سے  لڑنے کی خاطر دران کی طرف لپکا لیکن اس کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی لمبا بازؤ کئے  پنچ نے اسے  ہوا میں اچھال دیا ۔  وہ بے قابو ہو کر گرا ۔ گھبرا کر بمشکل  اٹھا ۔  گردن موڑ کر خوف سے دران کی طرف دیکھا جو اپنے کوٹ جے شکن درست کر رہا تھا ۔

" کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو۔ مجھے کیوں مار رہے ہو  "  

دران کے دو پنچ پڑنے پر ہی وہ ادھ موا ہو کر خوف زدہ ہوا ۔ اس سے پہلے کہ لڑکھڑاتا ہوا خوف کے باعث وہ اپنے بچاؤ کے لیے کمرے کی طرف بڑھتا انل نے پیچھے سے اس کے دونوں بازو قابو کرنے کے بعد اسے کرسی پر بیٹھا دیا ۔

" چھوڑو ۔۔ مجھے ۔۔۔۔ چھوڑو۔  مسئلہ کیا ہے ۔ کون ہو تم لوگ ؟  "   الجھ کر وہ نڈھال سا بار بار ایک ہی سوال دہرائے جا رہا تھا ۔

وہ انل کے بازوؤں سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا ۔   دران قریب آیا اور پھر سے زور دار تھپڑ نا صرف اس کا گال رنگ گیا تھا بلکہ اس کی گردن کو دائیں طرف  ایک بھرپور جھٹکا لگا ۔

اب کی بار اس نے جھکی گردن سے بمشکل اوپر دیکھا مگر سوال نہیں کیا جانتا تھا ۔ ہر سوال کے جواب میں سامنے کھڑا شخص منہ کھولنے کے بجائے ہاتھ چلا رہا تھا ۔

" جوی۔۔۔ 

دران نے ہاتھ  ہوا میں اٹھایا اور انگلیوں کی ہلکی سی جنبش سے دروازے کی طرف   اشارہ دیتے ہوئے پکارا    ۔  جوی جو کب سے اس کے بلانے کی منتظر تھی ۔ آگے بڑھی ۔  دروازے کے سامنے لکڑی کی زمین پر سایہ بنا ۔

جوی کے اندر قدم رکھتے ہی ۔ لی تاؤ کا منہ پورا کھل گیا ۔ وہ حیرت زدہ ۔۔۔ بے یقینی سے سامنے کھڑی جوی کو دیکھ رہا تھا ۔

" تم ۔۔۔ تم یہ۔۔یہ۔۔ یہاں  کیا کر رہی ہو ؟  کیسے آئی ۔۔۔شی۔۔شیون "

وہ جوی کو بے تاثر مگر سخت چہرے کے ساتھ اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ہکلانے لگا ۔  اس کا یوں ہکلانا بجا تھا ۔ وہ زخمی شیرنی کی طرح اس پر جھپٹی ۔ 

زور دار طمانچے اس کے منہ پر دائیں بائیں  مارنے کے بعد وہ ایک دم سے جیسے کسی جنونی کیفیت میں آ گئی  ۔ ٹانگیں گھما گھما کر وہ لی تاؤ کے پیٹ میں مار رہی تھی ۔  ارد گرد سے چیزیں اٹھا کر اس کے سر میں مار رہی تھی ۔ وہ جو ابھی دران سے پڑنے والے مکوں کی تاب نہیں لا سکا تھا ۔ جوی کے تابڑ توڑ حملے نے بے حال کر دیا ۔

انل نے کھلے منہ سے ایک نگاہ جوی کی طرف ڈالی اور پھر  سامنے کھڑے دران کی طرف دیکھا جو حیرت کے بجائے دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔  

لی تاؤ  درد سے چیخ رہا تھا ۔  وہ اسے پاگلوں کی طرح مار رہی تھی ۔ ٹانگ مار کر وہ  اسے کرسی سمیت زمین پر  گرا چکی تھی  ۔

انل تیزی سے دران کے قریب ہوا جو زیرلب مسکرا رہا تھا ۔ ہاتھ کی انگشت انگلی کو فولڈ کئے لبوں پر رکھے وہ پہلی دفعہ کسی کو متاثر کن نگاہوں سے دیکھ رہا تھا  ۔

لی تاؤ اب زمین پر گرا ہوا تھا جبکہ جوی اپنے بھاری بوٹوں والے پاؤں اس کے پیٹ میں  مار رہی تھی ۔ لی تاؤ کسی گیدڑ کی طرح چلا رہا تھا ۔ 

دران  روکو  جوی کو  کوئی سن لے گا اس کی چیخ و پکار " 

انل نے اردگرد دیکھتے ہوئے دران  سے کہا 

" مارنے دو  نہ ۔۔۔ وہ وہاں وہاں مار رہی ہے جہاں اس نے  مارا تھا ۔ سکون ملنے دو اسے  دران کی دلچسپی عروج پر تھی ۔

لبوں پر مسکراہٹ گہری ہو رہی تھی  ۔ اپنی زندگی میں پہلی دفعہ ایسی لڑکی دیکھی تھی اس نے ۔ اس کے مطابق تو جوی کی جگہ اور کوئی لڑکی ہوتی تو اتنا تششد کرنے والے شخص کو دیکھ کر پھر سے کانپنے لگتی مگر وہ تو گن گن کر بدلے لے رہی تھی ۔   ذہن میں اس کی چھت والا منظر گھوم گیا کمزور تو وہ کبھی نہیں تھی ۔

" امپریسو (impressive)۔۔۔ "   دران کے لب ستائشی انداز میں باہر نکلے ۔  کل جو لڑکی اس کے سامنے بیٹھی گڑگڑا رہی تھی آج والی لڑکی اس سے بہت مختلف تھی  ۔

لی تاؤ کی ہر مزاحمت کو ناکام کرتی اب وہ اس کے بال مٹھیوں میں جکڑے ہوئے تھی اور گردن کو جھٹکے دے رہی تھی ۔ وہ تھوڑا سا اٹھنے کی کوشش کرتا تو ٹانگ پکڑ کر کھینچ دیتی ۔  کچن کی شیلف پر پڑی ہر چیز وہ اٹھا اٹھا کر اس کے سر پر مار چکی  تھی ۔  انل نے غصے سے دران کی طرف دیکھا جو مزے سے سگریٹ سلگا رہا تھا ۔

" مر جائے گا وہ  ۔ کہو اسے بس کرے جو کام کرنے آئے ہیں وہ کریں اور چلتے بنیں یہاں سے "   انل نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا ۔

پھر دران سے نا امید ہوتا تیزی سے آگے بڑھا ۔ جوی جو اب  کوئی ڈبہ اٹھا کر اس کے سر میں مارنے والی تھی ۔انل نے اس کے بازو کو ہوا میں ہی تھام لیا ۔

" جوی ۔۔۔ جوی ۔۔۔ بس کرو ۔۔۔ بس ۔۔۔ اس کو پولیس کے حوالے کرنا ہے ۔  تم اپنا پاسپورٹ اور میرج سرٹیفکٹ لو بس " 

انل نے پچکارتے ہوئے اسے ٹھنڈا کیا تھا ۔ وہ ایک دم سے جیسے ہوش میں آئی ۔ پھر انل کی طرف دیکھا جو اس کے ہاتھ سے ڈبہ پکڑ کر واپس شیلف پر رکھ رہا تھا  ۔ دران سگریٹ کا کش لگاتا اب چند قدم آگے آ چکا تھا ۔ پھر  آہستگی سے نیچا بیٹھا ۔

" پاسپورٹ کہاں ہے  ؟ "

انگلش زبان میں پوچھا ۔  وہ پیروں کے بل لی تاؤ کے سامنے بیٹھا  تھا ۔ جو خون میں لتھ پتھ سر کے ساتھ کراہتے ہوئے زمین پر سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔  پھر خوف اور حیرت  سے دران  کی طرف دیکھا  ۔

" وہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ و۔۔ہ   سامنے۔ے۔ے۔ " 

کراہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ سامنے رکھے اٹیچی نما بھورے لیدر کے ڈبے  کی طرف کیا ۔   اٹیچی ایک لکڑی کی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ جوی تقریباً بھاگتی ہوئی اس تک پہنچی ۔ اٹیچی کے اندر رکھیں چیزں  کو کچھ دیر ہی الٹ پلٹ کرنے کے بعد وہ اپنا پاسپورٹ اس میں سے برآمد کر   چکی تھی ۔ پھر کچھ کاغذات ہاتھ میں تھامے واپس پلٹی ۔

کاغذات شائد اس کی شادی کی رجسٹریشن تھی ۔ جسے آتے ہی اس نے لی تاؤ کے سامنے کھڑے ہو کر پھاڑ دیا ۔

" میں اس  شادی کو  نہ کل مانتی تھی اور نہ آج میری شادی تم سے ہوئی ہی نہیں تھی " 

کاغذ کے ٹکڑے لی تاؤ پر اچھالتی وہ زور سے  چیخ   اٹھی ۔

" جوی ۔۔۔ لیو اٹ ۔۔۔ یہ ڈائیورس بھی دے گا ڈونٹ وری "   انل نے اچک کر جوی کو تسلی دی  جو شائد پھر سے اس کو مارنے لگتی ۔  نہ جانے کتنی اذتیں اس نے ان تین دنوں میں سہی تھیں جن کا لاوا آج پھٹا  ۔  تین دن وہ جس بے بسی میں اس کی قید میں تھی  ۔ کمزور وہ تب بھی نہیں تھی دو دفعہ اس نے بھاگنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن آج دران کا ساتھ ایک عجیب طاقت دے گیا تھا ۔

" کیسی طلاق ۔۔۔ یہ کیا طلاق دے گا مجھے میری شادی اس سے ہوئی ہی نہیں ۔ اس نے چرچ میں بائبل کے سامنے جتنے بھی دعوی کئے سب جھوٹے تھے  تو یہ کونسی شادی تھی ۔  "   جوی کی آواز  پھٹ رہی تھی ۔

آج وہ کمزور نہیں تھی ۔ یا کچھ عزم کر چکی تھی جس کی طاقت اس کی ہر ہر ادا سے جھلک رہی تھی ۔  چہرے کی رنگت گلے میں لپٹے اسکارف جیسی ہو رہی تھی ۔ 

" دران اب کیا کرنا ہے اس کا ؟ "

انل نے رخ موڑے دران سے سوال کیا  ۔ جو اب ہاتھ سینے پر باندھے  پرسوچ نگاہوں سے جوی کو بغور دیکھ رہا تھا ۔  انل کے پکارنے پر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔

" کچھ نہیں کرنا بس اس سے پاسپورٹ لینا تھا۔ اب نکلتے ہیں "   دران نے سینے پر بندھے ہاتھ کھولتے ہوئے متوازن لہجے میں جواب دیا

" کیا مطلب ایسے کیسے بھئ اسے پولیس کے پاس لے کر جاتے ہیں جوی کے بیان دلواتے ہیں  "  

انل نے حیرت سے بھنویں اکھٹی کئے اس کے قریب آ کر کہا ۔

" جوی چلیں نکلنا ہے ہمیں ۔ "   دران نے انل کی بات کا جواب دینے کے بجائے  جوی کی طرف دیکھ کر حکم صادر کیا ۔

انل نے  صرف دیکھنے پر اکتفا کیا کیونکہ اب اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا ۔ نہیں جانتا تھا ۔  سوچ وہ بھانپ لیتا تھا انل نہیں ۔   انل نے کندھے اچکا کر اس کی تقلید کی ۔

۔ شام کے سایے گہرے ہو رہے تھے جب وہ لوگ  وہاں سے باہر نکلے  ۔   لی تاؤ زمین پر رینگتا ہوا اب اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

                               ☆☆☆☆

ستاروں سے جھلماتے  آسمان کے نیچے یہ خوبصورت  ریزورٹ تھا ۔ یہ لاویا سے آگے  راستے میں آنے والا ایک مشہور ریزروٹ تھا  جہاں انہوں نے ایک لیگژری اپارٹمنٹ بک کیا تھا ۔

چھوٹے سے لاؤنج سے ملحقہ ایک عدد بیڈ روم ,   فرنشڈ کچن   اور ایک عدد ٹیرس  پر مشتمل یہ ریزورٹ بہت پرسکون تھا ۔   اپارئٹمنٹ کے لاؤنج میں موجود  آتش دان میں آگ اپنے جوبن پر تھی ۔ لکڑیاں سلگ رہی تھیں اور پورے کمرے کو حدت بخش رہی تھیں ۔

دران آتش دان کے قریب سنگل صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔ جبکہ انل  آتش دان کے قریب کمر پر ہاتھ دھرے  اکڑو  کھڑا تھا ۔  

جوی کو جیسے ہفتوں بعد یوں بے فکری کی  نیند آئی تھی وہ آتے ہی سو چکی تھی ۔   ان کو یہاں  آئے آدھا گھنٹہ ہوا تھا ۔ دران کے مطابق وہ ابھی شھنگائی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ لی تاؤ نے فوراً اس آدمی سے رابطہ کیا ہو گا جس کو اس نے جوی بیچی تھی ۔

وہ اور اس کے لوگ ان کا شھنگائی کے داخلے پر انتظار کر رہے ہوں گے ۔ اس لیے وہ لوگ واپس جانے کے بجائے لاویا سے آگے آ گئے تھے ۔  جبکہ یہاں بھی انل کا اس سے اختلاف تھا  کہ وہ یہاں رک کر زیادہ خطرہ مول رہے ہیں ۔  انل اب بھی اسی بات پر پچھلے دس منٹ سے  اس کے ساتھ بحث کر رہا تھا۔

" یہ کیا سب کچھ الٹ پلٹ کر رہے ہو ؟ سیدھا سیدھا جوی کو پولیس سٹیشن لے جاتے ۔ لی تاؤ کے بیان دلواتے اسے وہاں سے پاکستان لے جاتے ۔ سمپل 

انل نے غصے سے اسے سیدھے راستے بتائے ۔ دران نے تھکی سی ادھ کھلی  نگاہ آتش دان سے موڑی اور اس کی طرف دیکھا ۔ کل رات سے وہ جاگ رہا تھا اور اب آنکھیں بمشکل کھل رہی تھیں ۔  چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے ۔

" پاکستان سارا میڈیا اکٹھا ہوتا ۔ پوری دنیا کو پتا چل جاتا کہ وہ کہاں سے کن حالات سے واپس لوٹی ہے ۔ لوگ چار دن اس پر افسوس کریں گے پھر اس کے بعد کیا ہو گا  جانتے ہو ؟   ایسی لڑکی کا کیا حال ہوتا ہے معاشرے میں ۔  "   

تھکی سی  اور نیند کے خمار سے  بھاری ہوتی آواز میں  وہ آج کتنے عرصے بعد یوں کسی کے لیے فکرمند ہوتا انل کو حیرت میں ڈال گیا  ۔

" میں نے سوچ لیا ہے  یہ  سب کھلے گا لیکن جوی کے ذریعے نہیں  جوی  کی اس دوست کے ذریعے جو اس سے پہلے یہاں پھنسی ہوئی ہے 

" کون کونسی دوست ؟ "  انل نے بھنویں اچکائیں

" حنا ہے اس کی دوست کا نام  اس کی شادی بھی اسی گروہ کے تھرو ہوئی تھی ۔ وہ اپنے شوہر کی قید میں ہے ۔ وہ اس سے جسم فروشی کروا رہا ہے اپنے گھر میں قید کر رکھا ہے ۔ حنا نے پاکستان میں ہی  اسے انفارم کر دیا تھا ۔ اس نے نکلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔   حنا کو  وہاں سے نکالنا ہے ۔ جوی کو اس سب سے پوشیدہ رکھنا ہے "

وہ اٹل لہجے میں اسے اپنی سوچ سے آگاہی دے رہا تھا ۔

" مگر  جوی کیوں نہیں ؟ "

انل نے ٹھہرے سے لہجے میں اور  شاکی نگاہوں سے  سوال کیا ۔ دران نے چونک کر دیکھا ۔   انل کی سوچ پر بے ساختہ قہقہ امڈ آیا  ۔  نفی میں سر ہلاتے ہوئے بمشکل ہنسی پر قابو پایا ۔

" جوی  پر میں کوئی مر نہیں مٹا ۔ بس اس کو میں اپنے معاملے میں بھی گھسیٹ چکا ہوں  تو  اسے یونہی لٹکتا نہیں چھوڑ سکتا ۔ مجھے ہاروی اور بروس کی چال کو بھی ساری انڈسٹری کے سامنے لانا ہے ۔ " 

دران نے کرسی کی پشت سے سر ٹکائے وضاحت دی ۔

" جوی کو پھرکب  پاکستان بھجیں گے  ۔۔؟ " 

انل نے برجستہ اگلا سوال کیا

" جائے گی لیکن تب جب سب اس کے لیے  سکیور ہو جائے گا ابھی نہیں ۔ ابھی پاکستان بھی اس کے لیے خطرہ ہے ۔  "   دران نے گہری سانس لی اور ایک جھٹکے سے صوفے پر سے اٹھا ۔

میں سونے جا رہا ہوں " 

نیند سے بوجھل  آواز میں کہا پھر رکا ۔ ایک بیڈروم  والا اپارئٹمنٹ  ۔ بیڈ روم میں  جوی سو رہی تھی ۔

چھوٹے سے لاؤنج میں ایک عدد بڑا صوفہ تھا ۔ دران نے رخ موڑا ۔

" اب سونا کیسے ہے ؟ " 

" تم  صوفے پر سو جاؤ ۔ میں جاگ رہا  ہوں آج رات تم دونوں تو کل بھی نہیں سوئے "

انل نے مسکراتے ہوئے  حل پیش کیا  اور آتش دان کے پاس موجود سنگل صوفے پر براجمان ہوا ۔  دو سکینڈ کے توقف سے  گردن موڑا کر دیکھا تو دران جوتوں سمیت صوفے پر بے خبر سو رہا تھا ۔ 

گہری سانس لے کر اٹھا ۔  کبھی نہیں سدھرے گا کم از کم جوتے تو اتار لے انسان ۔  دران کے جوتے اتارنے کے بعد وہ واپس آتش دان کے پاس آ چکا تھا ۔


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Responsive Ads Here